اظہار تعزیت..... لبیا سے اٹلی۔۔موت کا سفر 😢😢
اظہار تعزیت..... لبیا سے اٹلی۔۔موت کا سفر 😢😢
اظہار تعزیت..... لبیا سے اٹلی۔۔موت کا سفر 😢😢
۔۔ڈوبنے والے کی تلاش ختم کر دی گئی ہے یونانی حکومت نے باقاعدہ اعلان کردیا ہے کم و بیش 500 افراد وفات پا چکے ہیں اور ان کی تلاش کیلیے جاری آپریشن روک دیا گیا ہے کیونکہ مزید کسی کے زندہ بچنے کی امید باقی نہیں رہی ۔
جنوبی یونان کے علاقہ پیلوس میں تارکین وطن کا جہاز بحیرہ روم کی 'پانی کی قبر' میں دفن ہو گیا- جہاز پر سوار لگ بھگ 700 سے 800 تارکین وطن سوار تھے ۔ ان میں سے 310 صرف پاکستانی تھے جن میں سے محض 12 افراد کو بچایا جا سکا ہے ۔یہ جہاز بحیرہ روم کے سب سے گہرے مقام پر بین الاقوامی پانیوں تقریباً 5000 میٹر کی گہرائی میں دفن ہو گیا ۔ اور کسی کے زندہ بچنے کی امید ختم ہو چکی ہے۔جنمیں بڑی تعداد بچوں اور عورتوں کی تھی
زرائع کے مطابق بدھ 14 جون کی صبح 03:00 بجے کوسٹ گارڈ کو ملنی والی سگنل کے مطابق جہاز میں 700 سے زائد افراد تھے۔ جہاز کی تباہی کے وقت زیادہ تر مسافر جہاز میں پھنس کر رہ گئے تھے جو سمندر کی سطح سے تقریباً 5 کلومیٹر نیچے بحیرہ روم کے سب سے گہرے حصے میں ڈوب گیا۔ زندہ بچ جانے والے عینی شاہدین کے مطابق جہاز میں زیادہ تر خواتین اور بچے تھے اور یہ جہاز پانچ دن سے سمندر میں سفر کر رہا تھا۔ گویا کہ اس بد قسمت ماہی گیروں کی کشتی نے 9 جون کو سفر کا آغاز کیا ۔۔ رسیکیو ٹیموں نے ڈوبتے
جہاز سے 104تارکین وطن کو زندہ بچایا۔جبکہ 78 ڈوبنے والے افراد کی ڈیڈ باڈیز ملی ہیں ۔۔
زندہ بچ جانے والے تارکین وطن کا تعلق افغانستان، پاکستان، شام اور فلسطین سے ھے ۔زندہ بچنے والے تارکین کو علاج معالجے کے بعد ان کے سفارت خانوں کے حوالے کر دیا گیا ۔ دو موبائل کشتیوں، کوسٹ گارڈ کے ایک لائف گارڈ، بحریہ کا ایک فریگیٹ، سات بحری جہاز،بحریہ کا ایک ہیلی کاپٹر اور ایک بغیر پائلٹ کے فضائی جہاز نے تلاش آپریشن میں حصہ لیا ۔لیکن آج 16 جون کو حکومت یونان نے باقی 500 افراد کی تلاش یہ کہ کرختم کردی ھے. کہ اب کسی کے بچنے کی کوئی امید باقی نہیں رہی۔ گزشتہ کل حکومت یونان نے تارکین وطن کے جہاز کے سانحہ کے بعد تین روزہ قومی سوگ کا اعلان کیا تھا۔ اور بڑے شہروں میں لواحقین کے ساتھ غم گساری کے لیےریلیاں نکالی گئیں ۔
بین الاقوامی سمندر کا وہ حصہ جسے بحیرہ روم کہتے ہیں تارکین وطن کی کشتی ایسی جگہ حادثے کا شکار ہوئی جس کی گہرائی 5 کلو میٹر سے زیادہ ھے اور یہاں خونخوار شارکوں کی کثرت ہے اور اتنی گہرائی میں سرچ آپریشن کرنا ممکن نہیں ہے ۔
دوسری طرف پاکستان کے حکمرانوں نے اتنے بڑے حادثے پر اظہار افسوس بھی نہیں کیا۔۔ جس میں 310 پاکستانیوں میں محض بارہ افراد کے زندہ ھونے کی اطلاع ھے. آزاد کشمیر کے ایک ہی گاؤں سے 26 افراد اور ایک ہی خاندان کے 13 افراد کے سوار ھو نے کی اطلاعات بھی ہیں ۔ 298 پاکستانی اس حادثے میں لقمہ اجل بنے ہیں
جاں بحق ھونے والے افراد کی 78 ڈیڈ باڈیز ناقابل شناخت ہیں ان کا ڈی این اے ھو گا تب تعین ہو سکے گا کہ ان کا نام پتہ کیا ھے ۔
اتنے بڑے سا سانحہ پر جتنا افسوس کیا جائے کم ھے. والدین کو بھی سوچنا ہو گا کہ وہ کب تک اپنے جگر گوشے سمندر کی قبر میں دفن کرتے رہیں گے ۔
سال باڈی مل جاتی تب بھی ماؤں کو صبر آجاتاھے ۔ لیکن بحیرہ روم 500 افراد کبھی بھی اپنے پیاروں کے پاس واپس نہ آسکیں گے ۔ اللّٰہ کریم سب بھائیوں کی مغفرت فرمائے اور جنت الفردوس میں اعلٰی مقام عطا فرماۓ آمین اے جی ایم انٹرنیشنل کی طرف سے ھم اس دکھ میں دلی افسوس کا اظہار کرتے ھیں اللّٰہ تمام عزیز واقارب کو صبرو جمیل عطا فرماۓ آمین ثمہ آمین
منجانب...... انفارمیشن.سیکرٹری.اےجی ایم انٹرنیشنل